Saturday 3 July 2021

سعادت حسن منٹو اور وَایکم محمد بشیر - ایک موازنہ

      ہم عصر شعرا و ادبا کے درمیاں موازنہ کرنے کا رواج اردو ادب میں پہلے سے ہی موجود تھا۔جبکہ بعض  شعرا و ادبا کوحریفین کے نام سے بھی ہم یاد کرتے ہیں جیسے انیسؔو دبیرؔ،غالبؔو ذوقؔ،میر حسنؔو دیا شنکر نسیمؔ،میر امنؔ دہلوی ورجب بیگ علی سرور،ملاّ وجہیؔوغواصیؔ وغیرہ اہم ہیں۔آج کل دو زبانوں کے یا مختلف زبانوں کے ادب یا ادیبوں کے موازنہ ہوبھی ہو رہا ہے۔Comparetive literature کا نیا شاخ بھی موجود ہے۔Comparetive literature کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ دیگر زبا ن و ادب،تہذیب اور ان کے فکرو نظر کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔

یہاں اردو کے ایک عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اور ملیالم کا ایک بلند پایہ ادیب  وایکم محمد بشیر کے درمیان ایک تقابلی مطالعہ درپیش ہے۔دونوں ہندوستان کی دو لسانی خاندان کے الگ الگ زبان کے فنکار  ہیں۔لیکن ان کی زندگی اور فن میں تھوڑا بہت اختلافات کے باوجود بہت ساری مماثلتیں  پائی جاتی ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دونوں کو اپنی اپنی زبان کی افسانہ نگاری میں بلند مرتبہ حاصل ہے۔منٹو کو تو جدید اردو افسانے کا بانی مانا جاتاہے۔ ان کا افسانہ ’پھندنے‘ سے ہی جدید اردو افسانے کا آغاز ہواتھا۔ اسی طرح وائکم محمد بشیر بھی ملیالم مختصر افسانے کو نئی جہت اور رنگ دیکر ایک نئی راہ دکھائی تھی۔ان کے افسانے سے ہی ملیالم افسانے میں صحیح طور پر حقیقت نگاری کی ابتداء ہوئی ہے۔

دونوں حقیقت نگار فنکار ہیں۔منٹو نے کہا تھا۔

”زمانے کے جس دور سے ہم گذر رہے ہیں،اگر آپ اس سے واقف ہیں تو میرے افسانے پڑھئے۔اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ نا قابلِ برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتاہے وہ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔“

     (لذّت سنگ۔منٹو  ص ۰۲)

منٹو کے جیسے محمد بشیر کا افسانہ بھی حقیقت پر مبنی ہے۔انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کوبہت ہی باریک بینی کے ساتھ بیان کرنے میں دونوں افسانہ نگارکمال رکھتے ہیں۔

بشیر کا افسانہ’جنم دن‘ اس کا سب سے عمدہ مثال ہے۔اس میں ایک ایسے نو جوان کی کہانی بیان کی گئی ہے کہ جو تعلیم یافتہ ہے مگر بے روزگار۔ وہ ملازمت کی تلاش میں شہر آکر بستا ہے۔بہت دن کی کوشش کے باوجود نوکری نہیں مل رہی ہے۔اس دوران  ہوٹل کے نوکر سے بھی قرض لینے پر مجبور ہو جاتاہے۔اور اپنے جنم دن میں بھوک کے مارے بازووالے کمرے کے لڑکے کا کھانا چوری کرکے کھاتا ہے اور رات میں جب وہی لڑکا کھانے سے فارغ ہوکر کمرہ پہنچتا ہے۔وہ اسی رات کا اپنا کھانا پڑوس میں رہنے والے بے روزگار نوجوان کو دینا چاہتا ہے۔ جب وہ دروازے پر دستک دی تو ڈر کے مارے بے روزگار نوجوان کے  پیٹ میں سے پورا کھاناہضم ہو جاتاہے اور اس طرح اس کا  جنم دن گذرجاتاہے۔

محمد بشیر کے دوسرے افسانے ’بھوک‘  اور ’ایک انسان‘ اسی قسم کی کہانیاں ہیں۔ملیالم کے ایک نقاد ڈاکٹر ایم۔پی۔پول نے بشیرکی افسانہ نگاری پر  ابتدائی دور ہی میں کہا تھا کہ

”۔۔۔  یہ زندگی سے پھاڑا ہوا ایک ورق ہے۔اس کے چاروں اور خون ٹپک رہی ہے۔“

(ڈاکٹر ایم۔پی۔پول)

دونوں کے افسانوں کے موضوعات میں طوائفوں کی زندگی کا خاص دخل ہے۔نیز دونوں تخلیق کاروں کے افسانوں میں طوائفوں کی زندگی نفسیات کے گہرے مشاہدیکی عکاسی ملتی ہے۔انھوں نے طوائف کے اندر کی عورت کو فاش کر دیا ہے۔شاید دونوں اپنی زبان کے سب سے پہلے ادیب ہیں جنھوں نے اس طبقے کو اتنی قریب سے دیکھ کر ان سے ہمدردانہ جذبے کا اظہار کیا ہو۔

بشیر کے افسانے شبدنگل(آوازیں)،وِشپ(بھوک)،پاوَپیٹاوَروڑے ویشیا(غریبوں کی طوائف)،تارا اسپشلزوغیرہ اور منٹو کے افسانے کالی شلوار،ہتک،سو کینڈل پاور کا بلب،شاردا، برمی لڑکی قادرا قصائی وغیرہ اس کے اہم مثالیں ہیں۔ان دونوں نے اس طبقے کی عورتوں کی مجبوریاں،ان کے مشکلات،بڈھاپا آنے کا ڈر جیسے حالات کی تصویر کشی کی ہیں۔

انسانی نفسیات کو خاص کر عورت کی نفسیا ت کو بے باکی کے ساتھ پیش کرنے کی وجہ سے ان دونوں فنکاروں کو بہت ساری جلی کٹی باتیں سننی پڑیں۔دونوں کے افسانوں کو فحش کے الزام بھی لگا یا۔اور ان کے ایسے افسانوں کی وجہ سے دونوں بدنام بھی ہو گئے تھے۔منٹو کو اس بات پر کئی بار مقدمے کے سلسلے میں عدالت جانا پڑا۔ انھوں نے اپنے افسانے بو،ٹھنڈاگوشت،دھواں،کھول دو  وغیرہ کے مقدمے کے سلسلے میں کئی بار عدالت گئے تھے۔محمد بشیر کے افسانے آوازیں،بھوک وغیرہ پرسخت تنقیدیں کی تھیں۔

دونوں کے ہاں انسانی نفسایات کا گہرا مشاہدہ جابجا ملتاہے۔منٹو کے بیشتر افسانے دراصل فرائڈ کے خیالات کا ترجمان ہے۔ بشیر کے افسانوں میں فرائڈ کے اثرات براہِ راست نہیں دیکھ پاتے۔پھر بھی انسانی نفسیات کا گہرا مشاہدہ بشیر کے افسانوں کے اہم اوصاف میں ایک ہے۔

منٹو اور  محمد بشیر دونوں کے ابتدائی دور کے افسانوں میں اشتراکی یا ترقی پسندی اور آزادی کے لئے جوش وولولے کے موضوعات ملتے ہیں۔علاوہ ازیں دونوں جوانی میں اشتراکی تحریک سے وابستہ رکھتے تھے۔محمد بشیرکو آزادی تحریک سے وابستہ رکھنے کے باعث جیل خانے میں بند کیا گیا تھا۔بھگت سنگھ کے جیسے ایک انتہا پسند تحریک قائم کرکے آزادی کے لئے لڑتے تھے اورافسانے اور مضامین لکھے تھے۔

منٹو پہلے کامریڈ اورمفکر کے فرضی نام سے لکھتے تھے۔ان کے ابتدائی زمانے کے موضوعات میں ترقی پسندی،آزادی اور بغاوت خاص اہم ہیں۔ان میں خونی تھوک،انقلاب،جی آیا صاحب دیوانہ شاعر،طاقت کا امتحان وغیرہ قابلِ ذکرہیں۔ انسان کو قابو میں لانے والی دو طاقتیں بھوک ار جنس ہیں۔حقیقی زندگی کو اصلیت سے پیش کرنے والے حقیقت نگار فنکار (ریلسٹ)اکثر غربت کے ساتھ ساتھ جنس کوبھی بے باکی سے پیش کرتے ہیں۔ آدمی اکثر عشق کے پاک  جذبے سے ہٹ کرجنس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔محمد بشیر کی کہانی ’پہلا بوسہ‘ میں ایک لڑکی کو پہلی بار بوسہ دینے کا واقعہ  ایک کردار سناتاہے۔یہ سن کر ایک فنکار پوچھتا ہے کہ ”تمہیں کیسے  معلوم کہ تم ہی نے پہلی بار اسے بوسہ دیا ہے؟تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تمہاری بیوی یا محبوبہ کو سب سے پہلی بار تم نے ہی بوسہ دیا ہے؟“کیا پاک محبت  صرف ایک خیال ہے؟ حقیقی طور پر یہ ایک ریلسٹک سوال ہے۔

بشیر کا افسانہ ’بے وقوفوں کی جنّت‘ میں جنس کو پاکیزگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔زوردار حیوانی جذبہ جنس سے  واحدمتکلم طوائف کے پاس پہنچتاہے۔جب واحد متکلم اس سے اسکی کہانی سن لیتا ہے تو اس کا حیوانی جذ بہ تھک جاتاہے۔انسانیت بیدار ہوتی ہے۔  ’وہ کچھ کہے بنا باقی شدہ روپے اسے دیکر وہاں سے باہرچلی جاتی ہے۔۔۔عجیب زندگی۔وہ،اس کی ماں،باپ،میت کے برابر کے بچّے۔۔۔۔چلتے ہوے سوچتا رہا۔کیوں اس طررح ہورہا ہے؟یہی عورت ہے کیا  میرے دل کو چیرنے والی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی؟وہ کیسے پیار کر سکتی ہے؟‘

یہی موضوع ہمیں سعادت حسن منٹو کا افسانہ ٹھنڈا گوشت میں نظر آتا ہے۔اس افسانے کا کردار  ایشرسنگھ اپنی حیوانی جذبہ جنسی خیالات سے ہی فسادات کے لو ٹ مار کے درمیاں اس جوان لڑکی کو اغوا کر لیتاہے اور اسے زنا بالجبر کرنے کی کوشش کرتاہے  تو ایشر سنگھ کو پتہ چلتا ہے کہ وہ لڑکی ڈر کے مارے مر گئی تھی۔ تو ایشر سنگھ کے اندر کی انسانی جذبہ باہر نکل آتی ہے۔اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جب کلونت کور سے عشق کرنے کی لاکھ کوشش کے باوجود  وہ  ہار جاتا ہے ا ور کلونت کور کے ہاتھ سے مر جاتاہے۔

حقیقت نگار فن کار عام طور پر غمگین فضا کو بیان کرتے ہیں۔زندگی کے تاریک پہلو کو وہ پیش کرتے ہیں۔بشیر اور منٹو ظرافت کے تعاون سے اس غمگین فضا کو قابو میں لاتے ہیں۔

دونوں کے افسانوں کے کردار جب برے ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کے اندر انسانیت کا جھلک نکل آتے ہوے دکھائی دیتا ہے۔منٹو کے کرداروں میں ایشرسنگھ،سہائے،موذیل،بابوگوپی ناتھ اور بشیر کے کردار’ایک انسان‘ کا جیب چرانے والا،نیتی نیایا(عدل وانصاف)کا عبدالرزاق وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

منٹو اور بشیر دونوں نے شہری زندگی اور یہاں کی کج رویوں اور پیچیدگیوں کو پیش کیا ہے۔اس کے باوجود ان کے کرداروں میں  خلوص اور محبت کا بڑا دخل ہے۔

دونوں کے افسانوں میں خود نوشت سوانح کا رنگ پھوٹ پھوٹ کر ابھر آتاہے۔کبھی وہ براہِ راست افسانے کا ایک کردار بن کر کبھی واحد متکلم کے طور پرافسانے میں اپنے تجربات کو پیش کیا ہے۔ ان کے افسانوں کے مطالعے سے ان کی شخصیت اور زندگی کے بہت سارے پہلوؤں پر معلومات حاصل ہوتی ہے۔ بقول ڈاکٹر کے۔ایم۔ترکن 

         ”بشیرکو دیگر فنکاروں سے مستثنی دینے والی باتیں،ان کی غیر معمولی شخصیت اور بے نظیر ذہانت ہے۔یہ باتیں دودھ میں مکھن کے جیسے اس میں شامل ہے۔صرف ایک فرق ہے۔دودھ سے مکھن الگ کر سکتے ہیں۔مگر لاکھ کوشش کے باو جود بشیر کی تخلیقات سے بشیر کو جدا نہیں کر سکتے۔“

یہ بھی بڑی عجیب مماثلت ہے کہ دونوں بچپن میں والد کی سخت گیر طبیعت کے باعث گھر سے بھاگ گئے تھے۔

   دونوں فلمی دنیا سے واستہ رکھتے تھے۔بشیر کے ’نیلا ویلی چم‘(نیلا روشنی)، متیلکل (دیواریں) ،عالمی شہرت یافتہ  ناک وغیرہ کہانیاں فلمائے گئے تھے۔اور منٹو بہت سارے فلموں کے لئے کہانیاں اور اسکرین پلے لکھے تھے اور مشہور بھی ہوے ہیں۔ان کا سب سے مشہور فلم  ’مرزا غالب‘ ہے۔

ان تمام مماثلتوں کے باوجود ان دونوں کے بیچ میں بعض اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وائکم محمد بشیرملیالم ادب کے صاحبِ طرز  نثر نگار ہی نہیں بلکہ سب سے منفرد انداز کا خالق بھی ہے۔وہ اب تک نہ کسی کو تقلید کر سکا ہے اورنہ آئندہ کسی کو تقلید کر پائیگا۔اس کے بر خلاف منٹو اب تک نہ صرف صاحبِ طرز نثر نگار کے عہدے پر فائز ہے اور آئندہ بھی اس کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ان دونوں افسانہ نگاروں کے یہاں نت نئی خصوصیات ڈھونڈ نکالے جارہے ہیں۔

دوسری اہم اختلاف کی بات یہ ہے کہ منٹو کے تخلیق کا پس منظر متحدہ  ہندوستان کی سماجی زندگی ہے تو بشیر کے پاس کیرلا کی سماجی زندگی ہے،وہ بھی خاص کر مسلمان طبقے کی زندگی تک محدود ہے۔علاوہ ازین  وایکم محمد بشیر کا  انداز منٹو سے ہی نہیں بلکہ تمام فنکاروں سے مختلف ہے۔بشیر اکثرmystic اورصوفی بن جاتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ بشیر نے زندگی کو مثبت نظروں سے دیکھا ہے اور اسی انداز میں اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔مگر منٹو نے منفی دنیا کے مثبت پہلو کو پیش کیا ہے۔

No comments:

Post a Comment

ഉറുദു ഗുൽസാറിന് ജ്ഞാന പീഠപുരസ്കാരം !!

ഡോ . കമറുന്നീസ.കെ ഉർദു വകുപ്പ് മേധാവി, ശ്രീശങ്കരാചാര്യ സംസ്കൃത സർവ്വകലാശാല - കാലടി ഉർദു കവിതയ്ക്ക് പുതിയ മാനം നൽകിയ ഇന്ത്യയിലെ ...