Sunday 8 November 2020

علامہ اقبالؔ کی شاعری کے چند رجحانات

 علامہ ڈاکٹر محمداقبال کا نام اردو شاعری کے عظیم شعراء میں سرِفہرست آتا ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ ہر نقادوں نے مخصوص اور منفرد زاویوں سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس لئے کہ اقبال ؔکی شاعری میں فلسفے کی آمیزش کے ساتھ ساتھ غیر معمولی تاریخی و ثقافتی،عمرانی اور جمالیات کا شعور ملتا ہے۔ ان کی شاعری اسلامی، ہندوستانی اور یورپی نظریہء حیات اور فن کے گہرے مطالعے کے بعد ہی وجود میں آیا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی شاعری میں ہمہ جہت پہلو دکھائی دیتا ہے۔ بقول آل احمد سرور  ”وہ تین روحانی اقلیتوں کا شاعر ہے۔ہندوستان، علمِ انسان اور مغرب۔اس بنیادی حقیقت کو سامنے رکھے بغیر اقبال کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکتا۔“  

       (دانشورِ اقبالؔ -آل احمد سرور۔ص255)

اقبال ؔنے اپنا شعری مجموعہ سب سے پہلی بار فارسی میں شائع کیا تھااور اردو سے زیادہ فارسی ہی میں شاعری کی ہے۔ ان کی مثنوی اسرارِ خودی 1915ء میں منظرِ عام آیا اور رموزِ بے خودی اور پیامِ مشرق کی اشاعت کے بعد ہی اردو میں بانگِ درا شائع کیا تھا۔ان کے شعری مجموعوں کی اشاعت کی فہرست اس طرح ہے۔

۱۔اسرارِ خودی  1915    ۲۔رموزِ بے خودی 1918   ۳۔پیامِ مشرق  1923   ۴۔بانگِ درا   1924(اردو)    ۵۔زبورِ عجم   1927    ۶۔جاوید نامہ  1932 ۷۔بالِ جبرئیل  1935 (اردو)     ۸۔ضربِ کلیم  1936 (اردو)   ڈاکٹر 

اقبالؔ بیک وقت فلسفی، پیامی، فطری، حب الوطنی، سیاسی اور مذہبی شاعر ہیں۔ اقبال کی شاعری کا سب سے پہلا موضوع فطرت کی تصویر کشی ہے۔ یہ پہلو ہمیں ان کی ابتدائی دور کی شاعری میں زیادہ ترنظرآتاہے۔ ان میں ہمالہ، ایک آرزو اور  شعاعِ امید جیسی نظمیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان نظموں کے ذریعے اقبال ایک نیچرل شاعر کے روپ میں قاری کے سامنے آتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر شوکت سبزواری۔

”اقبال ؔغالباََ یورپ جانے سے پہلے جس نظر کے مالک تھے،ذوقِ حسن اس میں ڈھل گیاتھا۔ لیکن ذوقِ حکمت کا رنگ ابھی اس میں نہیں آیا تھا۔اسی لئے حسین مناظر اور دلکش مناظر کی ظاہری چمک دمک ہی سے اسکی تسکین ہوجاتی تھی۔“

(اقبالؔ بحیثیت شاعر۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی   ص۷۱)

  البتہ اقبال کے یورپ جانے کے پہلے کی شاعری میں فکر سے زیادہ حسن کی پیش کش ہے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی دور کی شاعری میں مناظرِ فطرت کی تصویر کشی اور حب الوطنی کے موضوع پیش کر کے اپنی شعر ی ذوق کی پیاس بجھانے کی کوشش کی ہے۔لیکن چند ہی عرصے کے بعدفکرو نظر کوبھی پیش کرنا شروع کیا۔ان کی ابتدائی دور کی نظمیں گلِ رنگین اورخفتگانِ خاک سے استفسار سے فکری پہلو کا ظہور ہوتا ہے

  ؎ کام مجھ کو دیدہء حکمت کے الجھیڑوں سے

دیدہء بلبل سے میں کرتاہوں نظارہ   ترا

تم بتادو راز  جو  اس گنبد ِ  گرداں میں ہے

موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے

اقبال کی شعرو شاعری کی تخلیق میں ایک خاص مقصدیت پائی جاتی ہے۔اسی لئے ان کا ذہن شروع سے ہی ایک خاص مقصدیت پر مائل تھا۔خود اقبال نے اپنی شاعری پر لکھا ہے۔

”شاعری محض محاورات اور اظہارو بیان کی صحت سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہے۔میرے معیار (Ideals)تنقید نگاروں کے ادبی معیاروں سے مختلف ہیں۔میرے کلام میں شاعری محض ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔مجھے قطعاََیہ خواہش نہیں ہے کہ دورِ حاضر کے شعرا میں میرا بھی شمار ہو۔“ 

(خطوطِ اقبال مرتبہ رفیع الدین ہاشمی ص۱۳۳)

انھوں نے شاعری کے ہر دور میں مقصد کا خیال رکھا۔اس کے مطالعے سے ہمیں اقبال کی شاعری کی عظمت،مزاج اور پیغام کی قدروقیمت کا اندازہ بخوبی ملتاہے۔خواہ وہ ان کی ابتدائی دور کی شاعری میں ہو یا بعد کی۔مثلاََ وطنیت پر ان کی نظم تصویرِ درد کو لے لیجئے۔اس میں محض حب الوطنی کو ظاہر نہیں کیا بلکہ ایک مقصد لے کر پیغام پہنچایا ہے۔چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری میں پیغمبرانہ اندازدکھائی دیتا ہے۔

   ؎ نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو

تمھاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں 

اقبالؔ ایک پیامی شاعر ہے۔وہ کبھی اپنا پیغام ملّی شاعر بن کر،کبھی قومی شاعر بن کر اور کبھی آفاقی شاعر بن کر دیتے ہیں۔ ان کا پیغام مشرق ومغرب دونوں کو جگانے کا ہے۔اسی وجہ سے وہ عمل اور حرکت کا پیغام دیکر قوم کو جگاتے ہیں۔

  ؎ عمل سے زندگی  بنتی ہے  جنّت بھی جہنّم بھی 

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری    

مشرق سے ہوں بیرار نہ مغرب سے حذر ہو

فطرت  کا  اشارہ  ہے  ہر شب کو  سحر کر  

خودی کو  کر  بلند اتنا  کہ  ہر تقدیر سے  پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے   

اردو میں ظفر علی خان، محمد علی جوہر،حسرت موہانی اور اکبر الہ آبادی نے اصلاحی،سیاسی اور انقلابی نظموں کا ایک بڑا سرمایہ بہم پہنچا دیاہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ ایسی نظموں کے ساتھ غزل بھی اپنے روایتی مضامین کے دائرے کو توڑ کر سیاسی، سماجی اور انقلابی موضوعات،نئی زبان اورتازہ کار شعری رویّے اپناتی ہے۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ اس شعری سرمایوں میں اکثر وبیشترنظموں اور غزلوں کی شاعری صحافتی شاعری کہلانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ لیکن اقبال ایسے موضوعات پیش کرتے ہوئے صحافتی انداز سے دور رہے۔مثلاََ

سبق پھر پرھ،صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا  تجھ سے  کام   دنیا کی   امامت کا  

مسلماں کے  لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا

مروت حسنِ عالمگیر میں ہے مردانِ غازی کا     

مری نوائے شوق سے شورِ حریمِ ذات میں 

غلغلہ ہائے الاماں  بتکدہء   صفات میں      

شاعری کے دو پہلو ہیں۔ایک فنّی یعنی لفظوں کی ترتیب وموزونیت اور موسیقیت۔دوسرا پہلو اس کی تخیلی یا شعوری  ترتیب ہے، جس کے ذریعہ شعر میں جوش وولولہ اور گرمی پیداکر دیتی ہے۔ علامہ اقبال نے اس پہلو کو خونِ جگر سے تعبیر کیا ہے۔  

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر    

اقبالؔ کی شاعری میں فنّی اور فکری دونوں پہلوپائے جاتے ہیں۔اگر بالِ جبرئیل میں شعریت کا رنگ غالب ہے تو ضربِ کلیم میں شعریت سے زیادہ فکر کو اہمیت دی ہے۔ وہ ایک مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے فنکار بھی ہیں۔ان کے کلام میں گہرے اور عمیق فلسفیانہ خیالات موجود ہیں اور فن کی خوب صورت ملاپ بھی۔بقول صوفی غلام مصطفی تبسّم:

  ”اس کا سب سے بڑا کمال یہ نہیں ہے کہ وہ ایک فلسفی ہے اور اس نے دنیا کو نئی حکمتِ زندگی سے روشناس کرایا ہے بلکہ اس کی عظمت اس میں پوشیدہ ہے کہ وہ حکیمانہ افکار کو شعر  کے حسین اور رنگین پیرائے سے آراستہ کرتاہے۔“

(اقبالؔ بحیثیت شاعر۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی ص  ص103-104)

اقبال ایک فلسفی شاعر ہیں۔انھوں نے فلسفہء خودی کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ان کے ہاں خودی کا مطلب ہے خود شناسی یا عرفانِ ذات کا۔بالفاظِ دیگر خود (real self)کو پہچاننے کا ہے۔اس فلسفے کا خیال انھوں نے قرآن سے لیا ہے اور مغربی فلسفے سے بھی۔خودی کو انھوں نے سمندر سے تشبیہ دی ہے۔ان کی نظر میں خودی وصیع و عریض چیز ہے۔وہ اتنا ہے کہ خدائی بھی اس کے برابر ہوتی ہے۔ 

 ؎      خودی کی زد میں ساری خدائی

ایک اور جگہ اقبال یوں رقم طراز ہیں۔   

 ؎  خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں 

تو آب  جو اسے سمجھنا  اگر تو چارہ نہیں     

اقبالؔ نے شاعری میں اپنے فکرو نظر کی پیش کش کے لئے کچھ اپنی اصطلاحات سے کام لیا ہے۔ مثال کے طور پر ’شاہین‘۔ کچھ الفاظ اقبال نے تو خودنئے بنائے یاانھیں الفاظ کونئے معنوں میں استعمال کیا۔ مثلاََ خودی،مردِ مؤمن،ذوقِ یقین،عقل و عشق وغیرہ۔ان نئے الفاظ اور اصطلاحات نے اقبال کی شاعری میں بھی ایک نیا اندازاورنیا فکر پیدا کیا۔ان کے کلام میں یہ  اصطلاحات  فکر کی پیش کش کو آسان کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ شاعری کا حسن بڑھا دیا۔بقول سید صادق:

”ان کا تخلیق کردہ لسانی نظام ان کی فکر کی معنیاتی تہوں کو کھولتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے۔“

(فکرو تحقیق جولائی  تا ستمبر2005 ص 140)

الغرض اقبال  اپنی شعرو شاعری کے سفر میں مختلف رجحانات سے گذر کر اردو اور فارسی شاعری کے بلند درجے پر پہنچ گئے اور فارسی اور اردو  ادب کو اپنی شاعری اور فکر و نظر سے مالامال کر دیا۔

کتابیات

  •  دانشورِ اقبال -آل احمد سرور 
  •  اقبال بحیثیت شاعر۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی 
  •  اقبال اور عالمی ادب۔ عبد المغنی
  • شعر غیر شعر اور نثر۔ شمس الرحمن فاروقی
  •  فکرو تحقیق جولائی  تا ستمبر  2005
  •  خطوطِ اقبال مرتبہ رفیع الدین ہاشمی

No comments:

Post a Comment

ഉറുദു ഗുൽസാറിന് ജ്ഞാന പീഠപുരസ്കാരം !!

ഡോ . കമറുന്നീസ.കെ ഉർദു വകുപ്പ് മേധാവി, ശ്രീശങ്കരാചാര്യ സംസ്കൃത സർവ്വകലാശാല - കാലടി ഉർദു കവിതയ്ക്ക് പുതിയ മാനം നൽകിയ ഇന്ത്യയിലെ ...